جسٹس منیر: پاکستان کے ایک ’لائق‘ مگر متنازع چیف جسٹس

جسٹس منیر: پاکستان کے ایک ’لائق‘ مگر متنازع چیف جسٹس

’وہ ایک ایسا شخص تھا جس Ù†Û’ پاکستان Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی Ú©ÛŒ طرف دھکیل دیا۔‘ یہ تبصرہ ایک ایسی شخصیت Ú©Û’ بارے میں ہے جس Ù†Û’ قیام پاکستان سے قبل برصغیر Ú©ÛŒ تقسیم Ú©Û’ لیے قائم کیے جانے والے باؤنڈری کمیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ Ú©ÛŒ نمائندگی کی۔ قیام پاکستان Ú©Û’ یہ بعد یہ شخص پنجاب چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) کا چیف جسٹس بنا اور اس Ú©Û’ بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ) کا چیف جسٹس آف پاکستان بنا جسٹس محمد منیر جج Ú©ÛŒ حیثیت سے اپنے طویل کیرئیر Ú©Û’ دوران اپنا کردار ادا کر Ú©Û’ 26 جون 1981 Ú©Ùˆ اس دنیا سے Ú©ÙˆÚ† کر گئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن Ú©Û’ سابق صدر اور ملک Ú©Û’ ممتاز قانون دان حامد خان Ù†Û’ پاکستان Ú©ÛŒ آئینی اور سیاسی تاریخ Ú©Û’ بارے میں اپنی ضخیم اور مقبول کتاب ’کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھا: ’بطور جج جسٹس منیر Ú©ÛŒ قابلیت اور علمی حیثیت Ø´Ú© Ùˆ شبہے سے بالا ہے لیکن کاش ان Ú©Û’ ارادے بھی نیک ہوتے۔‘ پاکستان Ú©ÛŒ قومی تاریخ میں جسٹس منیر کا کردار باؤنڈری کمیشن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ باؤنڈری کمیشن Ú©Û’ ذریعے پنجاب Ú©ÛŒ ایسی تقسیم جس Ú©ÛŒ وجہ سے آزادی Ú©Û’ وقت بڑے پیمانے پر ہجرت اور قتل Ùˆ غارت گری Ú©Û’ علاوہ کشمیر جیسا پیچیدہ مسئلہ بھی پیدا ہو گیا جو برصغیر Ú©ÛŒ دو بڑی طاقتوں Ú©Û’ درمیان وجہ نزاع بنا۔ اس معاملے میں پاکستان میں باؤنڈری کمیشن (جسٹس منیر جس Ú©Û’ ایک رکن تھے) Ú©Û’ کرادر اور بعض صورتوں میں مسلم لیگی وفد Ú©ÛŒ کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا جاتا ہے تاہم قیام پاکستان Ú©Û’ بعد عدلیہ Ú©Û’ ایک ممتاز رکن Ú©ÛŒ حیثیت سے ان Ú©Û’ فیصلے بڑے پیمانے پر ہدف تنقید بنے۔ اس سلسلے میں ملک میں بہت حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ انھوں Ù†Û’ اپنے فیصلوں میں ’نظریہِ ضرورت‘ متعارف نہ کرایا ہوتا تو ملک Ú©ÛŒ تاریخ مختلف ہوتی۔ پاکستان میں جس طرح یہ اتفاق ہے کہ نظریہ ضرورت جسٹس منیر Ù†Û’ متعارف کرایا، اسی طرح اس پر بھی مختلف آرا نہیں پائی جاتی کہ ان Ú©Û’ منفی کردار کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس تو سیدھا اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل Ú©Û’ خلاف انصاف Ú©Û’ حصول کا مقدمہ تھا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان Ú©Û’ صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ Ú©Û’ مقابلے میں جب جگتو فرنٹ Ù†Û’ بھاری کامیابی حاصل کر Ù„ÛŒ تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اب مرکزی آئین ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے، اس لیے مرکز میں بھی نئے انتخابات کروائے جائیں۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا حشر دیکھ کر مسلم لیگ نئے انتخابات سے خوفزدہ تھی، اسے ڈر تھا کہ اگر کہیں انتخابات کرا دیے گئے تو اس Ú©Û’ پلے Ú©Ú†Ú¾ نہیں رہے گا۔ انتخابی نتائج Ú©Û’ خوف Ú©Û’ علاوہ مسلم لیگ Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ عرصہ قبل وزیراعظم Ú©ÛŒ حیثیت سے خواجہ ناظم الدین Ú©ÛŒ برطرفی کا بھی صدمہ تھا، حامد خان Ú©Û’ الفاظ میں گورنر جنرل غلام محمد Ù†Û’ جنھیں غیر آئینی طور پر برطرف کر دیا تھا۔ اسمبلی Ù†Û’ اس وقت تو کمزوری دکھائی اور خواجہ ناظم الدین Ú©ÛŒ برطرفی Ú©Ùˆ قبول کرتے ہوئے ان ہی Ú©Û’ نامزد کردہ محمد علی بوگرہ Ú©Ùˆ بطور وزیر اعظم تسلیم کر لیا تھا لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ وہ آئندہ ایسا کوئی اقدام نہ کر سکیں چنانچہ 21 ستمبر 1954 Ú©Ùˆ اسمبلی Ù†Û’ گورنر جنرل Ú©Û’ اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل اور حکومت Ú©ÛŒ برخواستگی Ú©Û’ اختیارات سلب کر لیے۔ موجودہ حالات Ú©Û’ مطابق یہ ایسی صورتحال تھی جیسے صدر مملکت Ú©Ùˆ آئین Ú©Û’ ارٹیکل اٹھاون ٹو بی سے محروم کر دیا جائے۔ گورنر جنرل Ù†Û’ آئین ساز اسمبلی Ú©Û’ اس اقدام کا جواب 23 روز Ú©Û’ بعد دیا۔ انھوں Ù†Û’ ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر Ú©Û’ آئین ساز اسمبلی Ú©Ùˆ تحلیل کر دیا۔ پاکستان Ú©ÛŒ یہ پہلی اسمبلی تھی، سربراہ ریاست Ù†Û’ غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے جس کا خاتمہ کیا تھا۔ حامد خان کہتے ہیں کہ گورنر جنرل کا یہ اقدام بلا جواز اور غیر قانونی تھا، ان Ú©ÛŒ رائے Ú©Û’ مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کارروائی میں فوج Ú©ÛŒ تائید شامل تھی کیونکہ اس Ú©Û’ بعد جو کابینہ بنائی گئی، اس میں کمانڈر انچیف (اب چیف آف آرمی اسٹاف) Ú©Ùˆ وزیر دفاع Ú©ÛŒ حیثیت سے شامل کیا گیا۔ ایوب خان Ù†Û’ اپنی سیاسی خود نوشت ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ گورنر جنرل Ù†Û’ انھیں پیشکش Ú©ÛŒ تھی کہ وہ ملک کا اختیار سنبھال کر تین ماہ میں آئین تیار کریں جسے انھوں Ù†Û’ مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ عاقبت نا اندیشی ہو گی۔ قدرت اللہ شہاب اس دعوے Ú©Ùˆ مسترد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فوج کا جو سربراہ اقتدار سنبھالنے Ú©ÛŒ پیشکش پر گورنر جنرل Ú©Ùˆ کھری کھری سنانے Ú©ÛŒ ہمت رکھتا ہو، اسے دیگر غیر آئینی اقدامات پر بھی اسے ٹوکنا چاہیے تھا لیکن ایسا کرنے Ú©Û’ بجائے وہ غیر آئینی اقدامات Ú©Û’ بعد بنائی جانے والی کابینہ میں فوج کا سربراہ رہتے ہوئے وزیر بن جاتا ہے جس سے ان Ú©Û’ دعویٰ کمزور ہو جاتا ہے۔ حامد خان کہتے ہیں کہ آئین اور جمہور Ú©ÛŒ حکمرانی Ú©Û’ خلاف طاقت ور طبقات Ú©ÛŒ ملی بھگت Ú©Û’ خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادارہ بھی ان ہی قوتوں Ú©Û’ ساتھ مل کر اقتدار Ú©ÛŒ کشمکش میں حصے دار بن گیا۔ آئین ساز اسمبلی Ú©Û’ صدر( اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان Ù†Û’ گورنر جنرل Ú©Û’ اس فیصلے Ú©Ùˆ چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ Ù†Û’ مقدمے Ú©ÛŒ سماعت Ú©Û’ بعد گورنر جنرل Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©Ùˆ کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی Ú©Ùˆ بحال کر دیا۔ مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ Ú©Û’ فیصلے Ú©Û’ خلاف فیڈرل کورٹ میں Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ فیڈرل کورٹ Ù†Û’ اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل Ú©Û’ حق میں کر دیا یعنی قرار دیا کہ ان Ú©ÛŒ طرف سے آئین ساز اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل کا اقدام درست تھا۔ حامد خان اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 64 صفحات Ú©Û’ فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ حامد خان مزید لکھتے ہیں کہ جسٹس منیر جیسے شخص سے یہ قطعاً پوشیدہ نہیں تھا کہ ان کا فیصلہ ملک Ú©Û’ جہاز Ú©Ùˆ گہرے پانیوں میں ڈبو کر رکھ دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے Ù†Û’ جس میں گورنر جنرل Ú©Ùˆ انھوں Ù†Û’ ملکہ برطانیہ جیسے اختیارات دے دیے تھے، عدلیہ Ú©Û’ بارے میں عوام Ú©Û’ تاثر Ú©Ùˆ ہمیشہ Ú©Û’ لیے مجروح کر دیا۔ جسٹس منیر Ù†Û’ اپنے اس فیصلے میں سندھ چیف کورٹ Ú©ÛŒ سرزنش Ú©ÛŒ تھی اور لکھا تھا کہ عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ پیش نظر نہیں رکھنا چاہئے کہ فیصلے Ú©Û’ نتائج کیا ہوں Ú¯Û’Û” حامد خان اس پر تنقید Ú©ÛŒ اور لکھا ہے کہ جسٹس منیر Ù†Û’ سندھ چیف کورٹ Ú©Û’ فیصلے پر تو تنقید کر Ù„ÛŒ لیکن اپنا طرز عمل بھول گئے اور اپنے فیصلے کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ اس قسم کا فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آجاتا اور خون ریزی ہوتی۔ حامد خان Ú©Û’ خیال میں اس فیصلے Ú©Û’ پس پشت اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز Ú©Û’ علاوہ برادری ازم کا تعصب بھی پایا جاتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل اور چیف جسٹس دونوں Ú©Ú©Û’ زئی برادری Ú©Û’ چشم Ùˆ چراغ تھے۔ قدرت اللہ شہاب Ù†Û’ اپنی خود نوشت ’شہاب نامہ‘ میں اس فیصلے Ú©Û’ پس پشت ایک اور کہانی کا بھی انکشاف کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جن دنوں اس مقدمے Ú©ÛŒ سماعت جاری تھی، گورنر جنرل ہاؤس Ú©Û’ ایک سینئر افسر فرخ امین ہر چند روز Ú©Û’ بعد دارالحکومت کراچی سے لاہور جایا کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب Ù†Û’ ان سے بازپرس Ú©ÛŒ تو انھوں Ù†Û’ بتایا کہ وہ گورنر جنرل Ú©Û’ خفیہ پیغامات چیف جسٹس تک اور چیف جسٹس Ú©Û’ خفیہ پیغامات گورنر جنرل تک پہنچاتے ہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ بظاہر گورنر جنرل اور چیف جسٹس Ú©Û’ درمیان اسی ساز باز کا نتیجہ تھا جسے پاکستان Ú©Û’ عوام Ù†Û’ کبھی قبول نہ کیا۔ پاکستان Ú©ÛŒ سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ کا اگلا سنگ میل یوسف پٹیل کیس ہے، اس مقدمے Ú©ÛŒ جڑیں بھی مولوی تمیز الدین کیس میں پیوست تھیں۔ فیڈرل کورٹ آف پاکستان Ù†Û’ نظریہ ضرورت Ú©ÛŒ بنیاد پر مولوی تمیز الدین کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس Ú©Û’ نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے Ú©Û’ نتیجے میں ملک Ú©Û’ 46 قوانین بھی کالعدم ہو گئے، اس وجہ سے کار ریاست Ú©Û’ روزمرہ Ú©Û’ امور Ú©ÛŒ انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے Ú©Û’ لیے گورنر جنرل غلام محمد Ù†Û’ اس فیصلے Ú©Û’ Ú†Ú¾ روز Ú©Û’ بعد ہنگامی اختیارات Ú©Û’ حصول Ú©Û’ لیے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس Ú©Û’ ذریعے گورنر جنرل Ù†Û’ جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت Ú©Û’ سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان Ú©Û’ چار صوبوں Ú©Ùˆ ون یونٹ میں تبدیل کرنے اور آئین سازی Ú©Û’ ضمن میں گورنر جنرل Ú©Ùˆ تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا اختیار تھا۔ غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی Ú©ÛŒ جگہ وہ اپنے نامزد افراد کا ایک کنوپنش منعقد کر Ú©Û’ ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔ اس مقصد Ú©Û’ لیے انھوں Ù†Û’ فیڈرل کورٹ میں ایک ریفرنس بھی دائر کر دیا جب کہ ان ہی اختیارات Ú©Ùˆ ایک شہری Ù†Û’ بھی وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا، یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس Ú©Û’ نام سے معروف ہوا۔ اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس Ú©Û’ نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل Ú©ÛŒ وجہ سے بہت سے قوانین Ú©ÛŒ توثیق نہیں ہو سکی تھی، گورنر جنرل Ù†Û’ آرڈیننس Ú©Û’ ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات Ú©Û’ ذریعے ان قوانین Ú©ÛŒ توثیق کر دی تھی، اس فیصلے Ú©Û’ ذریعے یہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں Ø¢ جاتی۔ عدالت Ù†Û’ نامزد افراد Ú©Û’ کنونشن Ú©Û’ ذریعے آئین سازی Ú©ÛŒ اجازت گورنر جنرل Ú©Ùˆ نہ دی۔ ان مقدمات Ú©Û’ فیصلوں Ú©Û’ ذریعے گورنر جنرل Ú©Ùˆ 100 فیصد کامیابی اگرچہ حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن ان Ú©Û’ راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی Ú©Ú¾Ú‘ÛŒ نہیں ہوئی۔ اس پس منظر سے اشارہ ملتا ہے کہ چیف جسٹس اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے تو فیصلہ مختلف ہوتا لیکن آئینی ماہرین اور مورخین Ú©Û’ مطابق ان Ú©Û’ پیش نظر Ú©Ú†Ú¾ دیگر مقاصد تھے، اس لیے انھوں Ù†Û’ اپنے ممکنہ فیصلے Ú©Ùˆ بنیاد فراہم کرنے Ú©Û’ لیے جواز Ú¯Ú¾Ú‘Ù†Û’ شروع کر دیے، چنانچہ ریفرنس Ú©Û’ فیصلے میں درج ایک جواز قدرت اللہ شہاب Ù†Û’ اپنی خود نوشت میں درج کیا ہے: ’ہم ایک خندق Ú©Û’ کنارے پر Ø¢ پہنچے ہیں جہاں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں: (1) جس راہ سے آئے ہیں، اسی راہ پر واپس Ù…Ú‘ جائیں، (2) خندق پر ایک قانونی پل تعمیر کر Ú©Û’ اسے عبور کر لیں (3) خندق میں چھلانگ لگا کر تباہی کا شکار ہو جائیں۔‘ جسٹس منیر Ù†Û’ واپس Ù…Ú‘Ù†Û’ یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک Ùˆ قوم Ú©Û’ لیے ادا کرنے کےلیے خندق پر ایک پل تعمیر کر دیا۔ تاریخ Ù†Û’ اسی پل Ú©Ùˆ ’نظریہ ضرورت‘ کا نام دیا جس Ù†Û’ صرف عین اسی زمانے میں ملک Ú©Ùˆ ایک پیچیدہ بحران میں مبتلا کر دیا بلکہ آنے والے زمانوں Ú©Û’ لیے مشکلات پیدا کیں جن Ú©Û’ آثار پینسٹھ ستر برس گزرنے Ú©Û’ بعد بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جسٹس منیر Ú©Û’ سیاسی نوعیت Ú©Û’ دیگر فیصلوں پر بھی اسی انداز فکر کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ جسٹس منیر کا تیسرا فیصلہ جس Ù†Û’ پاکستانی میں جمہوری سیاسی عمل Ú©ÛŒ راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹیں حائل کیں، ڈوسو کیس Ú©Û’ نتیجے میں سامنے آیا۔ ڈوسو کیس Ú©Û’ ذریعے ایوب خان Ú©Û’ مارشل لا Ú©Û’ نفاذ اور اس Ú©Û’ نتیجے میں ایک منتخب حکومت Ú©Û’ خاتمے Ú©Ùˆ چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس منیر Ù†Û’ اس مقدمے میں مارشل لا Ú©Û’ نفاذ اور اس Ú©ÛŒ وجہ سے جائز طور پر ایک منتخب آئینی اور قانونی نظام Ú©Û’ خاتمے Ú©Ùˆ بغاوت قرار دینے Ú©Û’ بجائے اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دینے Ú©Û’ لیے ہینس کیلسنز Ú©ÛŒ معروف تھیوری آف سٹیٹ کا سہار لیا۔ اس تھیوری میں کہا گیا کہ ایک کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے اور اسے آئین سازی کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے، اس سلسلے میں انھوں Ù†Û’ انقلاب فرانس، انقلاب چین اور اور انقلاب روس Ú©ÛŒ مثالیں پیش کیں۔ کیا ایوب خان Ú©Û’ مارشل لا Ú©Ùˆ جواز دینے Ú©Û’ لیے جسٹس منیر کا یہ استدلال درست تھا؟ حامد خان ایڈوکیٹ Ù†Û’ اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا: ’ہرگز نہیں۔‘ انھوں Ù†Û’ بتایا کہ ’ساٹھ Ú©ÛŒ اُس دہائی میں دنیا Ú©Û’ مختلف حصوں میں مارشل لا نافذ ہوتے رہتے تھے۔ پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ بھی اسی قسم کا ایک واقعہ تھا جسے فرانس، روس یا چین جیسے انقلاب Ú©Û’ مماثل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ خود تھیوری آف سٹیٹ Ú©Û’ مصنف ہینس کیلسنز Ù†Û’ بھی اس موقع پر کہا کہ اس فیصلے Ú©Û’ ذریعے ان Ú©ÛŒ تھیوری Ú©Ùˆ جو رنگ دیا جارہا ہے، وہ درست نہیں۔‘ سیاسی مضمرات رکھنے والے جسٹس منیر Ú©Û’ یہی بنیادی فیصلے ہیں جن Ú©ÛŒ وجہ سے ملک سیاسی اور آئینی طور پر اپنے راستے سے بھٹک گیا تاہم حامد خان کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ ایسے دور رس مضمرات رکھتا تھا جس Ú©Û’ نتیجے میں مشرقی پاکستان Ú©ÛŒ علیحدگی Ú©ÛŒ بنیاد رکھ دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس Ú©Û’ فیصلے Ú©Û’ اس پہلو کا جائزہ لینے Ú©Û’ لیے اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل Ú©Û’ پس منظر کا غیر روائیتی انداز میں جائزہ لینے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا اس زمانے Ú©Û’ تاریخی تذکروں میں ذکر نہیں ملتا۔ حامد خان کہتے ہیں کہ 24 اکتوبر 1954 Ú©Ùˆ آئین ساز اسمبلی Ú©ÛŒ تحلیل سے چار روز قبل یہ اسمبلی پاکستان کا پہلا آئین تیار کر Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ ’اس آئین کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان Ú©Û’ درمیان آبادی Ú©Û’ فرق کا تنازع Ø·Û’ کر دیا گیا تھا جس Ú©Û’ تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان Ú©ÛŒ نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان Ú©ÛŒ نشستوں کا تناسب 45 فیصد Ø·Û’ کر دیا گیا تھا۔‘ ’منصوبے Ú©Û’ مطابق آئین ساز اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور Ú©Û’ مسودے Ú©Ùˆ حتمی Ø´Ú©Ù„ دے کر اس Ú©ÛŒ منظوری کا فیصلہ کر Ú†Ú©ÛŒ تھی کہ غلام محمد Ù†Û’ اسمبلی Ú©Ùˆ تحلیل کر Ú©Û’ دستور Ú©ÛŒ منظوری کا راستہ بند کر دیا، اس طرح ملک Ú©Û’ دونوں حصوں Ú©Û’ درمیان پارلیمان میں نمائندگی کا مشکل مسئلہ جو اس دستور میں حل کر دیا گیا تھا، ایک بار پھر بگاڑ کر مشرقی پاکستان Ú©Û’ حق نمائندگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان Ú©Û’ حق حکمرانی Ú©Ùˆ کبھی قبول نہیں کرے گی، اس طرح اس فیصلے Ù†Û’ علیحدگی کا بیج بو دیا۔‘