اپنے ہی یوگا سکول کے خلاف ریپ اور جنسی تشدد کے الزامات پر بی بی سی کی صحافی کی تحقیقات کی کہانی

اپنے ہی یوگا سکول کے خلاف ریپ اور جنسی تشدد کے الزامات پر بی بی سی کی صحافی کی تحقیقات کی کہانی
بی بی سی کی صحافی اشلین کور دنیا میں یوگا کے سب سے بڑے نظام میں سے ایک سیواناندا سے منسلک ایک معتبر یوگا ٹیچر تھیں تاہم ایک پریشان کن سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے انھوں نے پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں ہونے والے جنسی تشدد کے مبینہ واقعات کو بے نقاب کیا۔ میری عمر اس وقت 20 کے پیٹے میں تھی جب مجھے یوگا کے بارے میں معلوم ہوا اور پھر یہ میری زندگی کا ایک بہت اہم حصہ بن گیا۔ مجھ سے یوگا سیکھنے والوں کی طرح یہ میرے لیے صرف ایک ورزش کی کلاس نہیں تھی بلکہ زندگی گزارنے کا ذریعہ بھی تھا۔ میں صرف اپنے مقامی سیواناندا مرکز میں یوگا سکھانے ہی نہیں جاتی تھی بلکہ وہاں کھانا بھی بناتی تھی اور صفائی بھی کیا کرتی تھی۔ سیواناندا کی تربیت نے میرے وجود کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیا تھا۔ لیکن دسمبر 2019 میں مجھے فون پر ایک نوٹیفیکیشن موصول ہوا۔ یہ میرے سیواناندا فیس بک گروپ پر ایک پوسٹ تھی جو اس موومنٹ کے محترم بانی سوامی وشنودیواناندا کے بارے میں تھی۔ جولی سالٹر نامی خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ وشنودیواناندا نے انھیں تین برس تک کینیڈا میں سیواناندا ہیڈکوارٹر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے لکھا کہ جب انھیں دہائیوں بعد اس بارے میں بات کرنے کی جرات ہوئی تو انھوں نے سیواناندا کی انتظامیہ کے بورڈ کو اس بارے میں رپورٹ کیا تاہم ’ان کا ردِ عمل خاموشی سے خاموش کروانے کی کوشش تک ہی محدود تھا۔‘ میں نے اب تک 14 ایسی خواتین کے انٹرویوز کیے ہیں جنھیں سینیئر سیواناندا ٹیچرز کے ہاتھوں مبینہ جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے اکثر نے پبلک میں اس بارے میں بات کرنا تو درکنار فیملی اور دوستوں سے بھی اس بارے میں بات نہیں کی۔ میں نے ایک سابق سٹاف کی رکن سے بھی بات کی جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خدشات پر بورڈ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ میری تحقیقات نے اس ادارے میں طاقت اور اثر و رسوخ کے غلط استعمال کے دعوؤں کو بے نقاب کیا ہے جو میرے دل کے انتہائی قریب تھا۔ مجھے انڈیا کے جنوب میں کیرالا شہر میں ایک سیواناندا آشرم میں اپنا پہلا دن اچھی طرح سے یاد ہے جہاں میں نے سنہ 2014 میں یوگا سکھانے کے لیے ٹریننگ حاصل کی تھی۔ وہاں دیوار پر سوامی وشنودیواناندا کی ایک خوبصورت تصویر لٹکی ہوئی تھی جو سیواناندا کے بانی تھے اور اب اس دنیا میں نہیں تھے۔ جولی کی جانب سے انھی پر الزامات لگائے جانے تھے۔ ان کی تعلیمات اتنی طاقتور تھیں کہ یوگا کی تعلیم حاصل کرنے والے اکثر افراد نے تمام دنیاوی روابط چھوڑ کر اپنی زندگیاں اس تنظیم کے لیے وقف کر دیں۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔ میں خود بھی ایک کٹھن وقت سے گزر رہی تھی اور سیواناندا نے مجھے سکون بخشا۔ اسانا یا یوگا کے دوران جسم کو مخصوص وضع میں لانے کے باعث مجھے جسمانی قوت ملی ہے۔ سیواناندا کے اصول برائے کرما، مثبت سوچ اور غور و فکر کے عمل نے میری روح کو تازگی بخشی۔ سنہ 2015 میں میں نے ایک ایسے شخص سے شادی کی جو لندن میں رہتا تھا۔ مجھے اپنے شوہر کے پاس لندن میں رہنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی لیکن پھر مجھے معلوم ہے کہ وہاں ہمارے نئے گھر سے کچھ ہی دور پٹنی میں ایک سیواناندا مرکز موجود ہے۔ میرے شوہر مذاق کیا کرتے تھے کہ یہ مرکز ہی میری پہلی محبت ہے وہ نہیں ہیں۔ جولی سلیٹر کی فیس بک پوسٹ کے بعد سیواناندا بورڈ کے دو اراکین بذریعہ پرواز یورپ آئے تاکہ پٹنی کے سٹاف سے بات کر سکیں۔ مجھے امید تھی کہ ان کے پاس کم از کم میرے بہت سارے سوالات میں سے چند کے جوابات تو ہوں گے۔ لیکن ان کا ردِ عمل خاصا غیر واضح تھا اور وہ بعد میں ہونے والے سوال و جواب کے دوران دفاعی انداز اپنائے ہوئے تھے۔ مجھے علم ہو گیا کہ اب مجھے جولی سے خود ہی بات کرنا ہو گی۔ جولی کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے اور وہ 20 سال کی عمر میں جب اسرائیل کی سیر کر رہی تھیں تو انھیں پہلی مرتبہ سیواناندا کی تعلیمات کے بارے میں علم ہوا۔ وہ جلد ہی اس یوگا تحریک کی زندگی میں کھو گئیں اور سنہ 1978 میں کینیڈا میں اس کے ہیڈکوارٹرز چلی گئیں۔ وشنودیواناندا بھی وہیں مقیم تھے اور جولی سے کہا گیا تھا کہ وہ بطور ان ذاتی معاون خدمات انجام دیں جو جولی کے لیے آغاز میں خاصی اعزاز کی بات تھی۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس دوران ان کے کام کا دورانیہ خاصا کٹھن تھا۔ وہ صبح پانچ بجے سے لے آدھی رات تک کام میں جتی رہتیں، اور یہ سلسلہ ہفتے کے ساتوں دن ایسے ہی چلا جا رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ سوامی وشنودیواناندا وقت کے ساتھ خاصی غیر متوقع حرکات کرنے لگے، اور وہ ان پر اکثر چلانے لگے تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ظاہر ہے کہ میری اپنی حدود بھی وقت کے ساتھ خاصی کمزور پڑتی جا رہی تھیں۔‘ اور پھر یہ واقعات پریشان کن حد تک بھیانک ہوتے گئے۔ ایک دن جب جولی وشنودیواناندا کے گھر پر کام کر رہی تھیں تو انھوں نے دیکھا کہ وہ زمین پر لیٹ کر سیواناندا سے متعلق عقیدت مندانہ ٹیپس سن رہے ہیں۔ وشنودیواناندا نے جولی سے اپنے ساتھ لیٹنے کو کہا۔ جب جولی نے ان سے پوچھا کہ انھیں ان کی بات کی سمجھ نہیں آئی تو وشنودیواناندا نے جواب دیا: ’ٹانٹرا یوگا‘۔ یہ یوگا پریکٹس دراصل روحانی سیکس سے منسلک ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی روح کو روشن رکھنے کے لیے گہرا سکون محسوس کریں۔ تاہم جولی کہا کہنا ہے کہ وشنودیواناندا نے اس بات کو اپنے لیکچرز میں صرف نطریاتی اعتبار سے ہی بیان کیا تھا۔ میں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے‘ اور حالانکہ میرا ذہن اور جسم مجھے ایسا کرنے سے روک رہا تھا، لیکن میں ان کے ساتھ لیٹ گئی اور پھرہمارے درمیان جنسی تعلق قائم ہوا اور اس کے بعد میں دوبارہ سے نیچے چلی گئی اور اپنے کام میں لگ گئی لیکن مجھ میں شرم، بے چینی، اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرانا اور مجرمانہ احساس جنم لینے لگا۔ جولی کے مطابق انھیں تین سال سے زائد عرصے کے دوران متعدد جنسی عمل کروائے گئے جن میں سیکس بھی شامل تھا۔ گورو اور شاگرد کے درمیان رشتہ جسے یوگا میں گورو ششیا پرمپرا کے نام سے جانا جاتا ہے ایک ایسا خاموش معاہدہ ہوتا ہے جس کے مطابق شاگرد کو گورو کی تمام خواہشات کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔ جولی اب وشنودیواناندا کے افعال کو ریپ سمجھتی ہیں کیونکہ ان کی پوزیشن نے انھیں بطور شاگرد اپنی مرضی ظاہر کرنے سے محروم کر دیا تھا کیونکہ ان اس رشتہ رتبے اور طاقت کا اثر و رسوخ بھی تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی کیونکہ میں اپنے خاندان سے بہت دور دنیا کے دوسرے کونے میں مقیم تھی اور میں اس تنظیم پر مالی اعتبار سے منحصر تھی۔‘ پھر میں نے ان دو خواتین سے بات کی جنھوں نے جولی کی فیس بک پوسٹ پر چند منٹ بعد ہی پوسٹ کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ انھیں بھی وشنودیواناندا کی جانب سے ریپ کیا گیا تھا۔ پامیلا نے بتایا کہ وشنودیواناندا نے انھیں ونڈزر کاسل لندن میں سنہ 1978 میں ریپ کیا گیا تھا جب وہ زمین انتہائی اطمینان کے ساتھ لیٹی ہوئی تھیں۔ یوگا میں جسم کی اس حالت کو کورپس پوز (یعنی لاش کی طرح ساقت رہنا) کہا جاتا ہے۔ لوسیلی نے بتایا کہ انھیں وشنودیواناندا کی جانب سے 70 کی دہائی میں کینیڈا کے آشرم میں تین مرتبہ ریپ کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلی دو مرتبہ تو انھوں نے اس کا جواز بنایا کہ یہ ’ٹانٹرک یوگا‘ ہے لیکن تیسری مرتبہ وشنودیواناندا نے لوسیلی کو پیسے دیا اور انھیں لگا کہ وہ جسم فروشی کر رہی ہیں۔ وشنودیواناندا سنہ 1993 میں وفات پا گئے لیکن جولی کو اس تنظیم کو چھوڑنے میں مزید چھ سال لگے۔ اب ان کی واحد امید یہی ہے کہ اس وقت بولنے سے وہ اپنے جیسی دیگر خواتین کو اس بچا سکیں گی۔ کیونکہ مجھے بھی یہ بات بعد میں پتا چلی کہ وشنودیواناندا بیشک اب اس دنیا میں نہیں لیکن سیواناندا کے عقیدت مندوں کا ریپ ختم نہیں ہوا۔ جولی کی ایک فیس بک پوسٹ نے ایسے ہی کئی افراد لیے بات کرنا کاموقع فراہم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے میں نے تقریباً 11 ایسی خواتین سے بات کی جنھوں نے دو سیواناندا ٹیچرز کے بارے میں سنگین الزامات لگائے اور بی بی سی کے مطابق ان میں سے ایک آج بھی اس تنظیم میں متحرک ہے۔ ان میں سے ایک انتہائی چونکا دینے والا الزام مری (فرضی نام) کا تھا جن کے مطابق انھیں ان کے ایک ٹیچر نے کئی سالوں تک اس حوالے سے تیار کیا تھا۔ ان ٹیچر کا نام ہم قانونی وجوہات کی بنا پر نہیں لے رہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت الجھن میں مبتلا ہوئیں جب ان کا اور اس ٹیچر کا تعلق جنسی حیثیت اختیار کر گیا لیکن اس وقت ان کے نزدیک اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے درمیان جنسی تعلق ہوئے ایک سال بیت گیا کہ اچانک ایک روز وہ ان کے کمرے میں آئے، ان کے اوپر چڑھے، ان کے ساتھ سیکس کیا اور کچھ کہے بنا لوٹ گئے۔ مزید پانچ خواتین نے مجھے بتایا ہے کہ اس شخص نے انھیں بھی ریپ کیا تھا۔ یہ تمام خواتین ایک دوسرے کو تو نہیں جانتی لیکن ان سب کی کہانیوں میں مماثلت ہے اور یہ کہ پہلے انھیں کئی سال اس کے لیے تیار کیا گیا، اور پھر ان کا ریپ کیا گیا۔ کیتھرین (فرضی نام) اس وقت صرف 12 برس کی تھیں اور 1980 میں کینیڈا میں بچوں کے لیے منعقدہ سیواناندا کیمپ میں شرکت کر رہی تھیں جب ان کے نزدیک اس ٹیچر نے ان میں جنسی طور پر دلچسپی لینا شروع کی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ میری مالش کیا کرتے اور پھر کولہوں کو چھوتے۔ جب وہ 15 سال کی تھیں تو اس ٹیچر نے انھیں مزید بے باک انداز میں چھونا شروع کر دیا، وہ کبھی انھیں ان کی ٹانگوں کے درمیان سے پکڑ لیتے اور کبھی ان کی چھاتی کو چھوتے۔ وہ کہتی ہیں آخری مرتبہ جب انھوں نے ان کا ریپ کیا تو وہ 17 برس کی تھیں۔ وہ اس دوران کچھ دیر کے لیے سو رہی تھیں اور جب ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے اس ٹیچر کو اپنے اوپر پایا۔ انھوں نے اس دن یہ تنظیم چھوڑ دی۔ ایک اور خاتون بتاتی ہیں کہ انھیں سنہ 2019 میں ریپ کیا گیا تھا۔ ہم نے اس ٹیچر سے رابطہ کیا اور انھیں ان الزامات کا جواب دینے کا موقع بھی دیا تاہم وہ ان الزامات کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ بی بی سی کو معلوم ہے کہ یہ ٹیچر اب بھی سیواناندا انڈیا میں متحرک ہے، حالانکہ تنظیم کی جانب سے اس حوالے سے انکار کیا جاتا ہے۔ دوسرے ٹیچر جن پر اس حوالے سے الزامات لگائے گئے ہیں وہ موریزیو فنوشی ہیں جو سوامی مہادیواناندا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف الزام عائد کرنے والی آٹھ خواتین نے مجھ سے بات کی ہے۔ ان میں سے ایک وینڈی ہیں جو سنہ 2006 میں کینیڈا ہیڈکوراٹرز میں مہادیواناندا کی ذاتی معاون تھیں۔ ان کے متعدد کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ انھیں مہادیواناندا کو بھیجی گئی ای میلز پرنٹ کروا کر ان کے کیبن میں لے جانی ہوتی تھیں۔ ایک دن مہادیواناندا نے انھیں کال کی اور ان سے ان کی ای میلز اور ناشتہ ان کے ذاتی کمرے لانے کے بارے میں کہا جہاں وہ خود اپنے بستر میں بیٹھے تھے۔ جب انھوں نے مہادیواناندا کو ناشتے کا ٹرے پکڑایا تو انھوں نے وینڈی کا بازو پکڑا اور چادر ہٹائی تو انھوں نے دیکھا کہ وہ مشت زنی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھر انھوں نے ان کے بازو پر اخراج کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے وہ احساس آج بھی یاد ہے کہ اس کے لیے میں انسان ہی نہیں تھی۔ میں صرف ایک ضرورت پوری کرنے والی چیز تھی۔‘ وینڈی کہتی ہیں کہ اگر خواتین سینیئر سٹاف کے پاس پریشان کن اور کئی مرتبہ مجرمانہ رویے کے بارے میں رپورٹ کرنے جاتی ہیں سٹاف اسے روحانی تعلیم کے مطابق ’گورو کی مہربانی‘ کہہ کر نظر انداز کر دیتا تھا۔ وینڈی کے مطابق ’اگر کوئی چیز غلط یا عجیب لگتی اور میں یہاں انتظامی چیزوں کی بھی بات کر رہی ہوں، لیکن خاص طور پر جنسی تعلقات اور قابلِ اعتراض تعلقات کی بات کر رہی ہوں، تو جواب دیا جاتاہے کہ ’نہیں، اگر آپ کو اس سے مسئلہ ہو رہا ہے تو یہ بھی گورو کی مہربانی ہے۔‘ ’جیسے آپ کو کوئی انتہائی قیمتی بات بتائی جا رہی ہو۔‘ ہم نے مہادیواناندا کو ان الزامات کا جواب دینے کا موقع دیا لیکن ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم بی بی سی نے ایک ای میل کی کاپی ضرور دیکھی ہے جو انھوں نے پراجیکٹ ستیا نامی سیواناندا کمیونٹی فیس بک گروپ کی جانب سے مشترکہ طور پر رکھے گئے وکیل کو ایک ای میل کے جواب میں کی ہے۔ میں خود بھی اس گروپ کا حصہ ہوں اور وہ ای میلی میں اپنی ’غلط حرکتوں‘ پر معافی مانگتے ہیں اور ’یہ کام آئندہ نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔‘ ایک اور بات جو میں سمجھنا چاہتی تھی وہ یہ تھی کہ اس سب کے بارے میں انتظامیہ کتنا جانتی تھی۔ جولی نے مجھے بتایا کہ ان میں آخرکار سنہ 2003 میں اپنے ساتھ ہونے ریپ کے خلاف رپورٹ کرنے کی ہمت پیدا ہوئی اور انھوں نے ایگزویکٹو ممبرز بورڈ کی ایک میٹنگ میں شرکت کی جو وشنودیواناندا کی موت کے بعد سیواناندا کے انتظام کو سنبھالنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا بورڈ کے اراکین میں سے ایک سوامی مہادیواناندا بھی تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم وہاں کچھ دیر ٹھہرے لیکن انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انھیں اس بات کے بارے میں برسوں سے علم تھا۔‘ سوامی مہادیواناندا کو اب ریپ کے الزامات کا سامنا ہے لیکن جولی کو اس وقت اس بات کا علم نہیں تھا۔ جولی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اگلے چند ہفتوں کے دوران چار مزید بورڈ اراکین کو اپنے الزامات کے بارے میں بتایا۔ تاہم بورڈ کے اراکین اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ جولی نے سنہ 2003 میں ان سے اپنے الزامات کے بارے میں ذکر بھی کیا تھا۔ تاہم بی بی سی نے وہ ای میل دیکھی ہے جس میں مہادیواناندا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے جولی سے اس دوران ملاقات کی تھی۔ وہ اس ملاقات کو غیر رسمی قرار دیتے ہیں تاہم وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس میٹنگ کے بعد ان الزامات کی ’خبر عام ہو گئی تھی۔‘ سنہ 2006 میں جولی نے بورڈ کے ساتھ وکلا کی موجودگی میں ایک میٹنگ کی جس میں ان کو مالی مدد دینے سے متعلق بات ہوئی۔ اس دوران ریپ کے الزامات بھی دوبارہ اٹھائے گئے۔ بورڈ کے اراکین نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں اطراف کے افراد اس وقت ان نتائج سے خاصے خوش تھے لیکن جولی کا کہنا ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ اگلے برس جولی کے وکیل نے بورڈ کو خط لکھا اور ان سے طے شدہ رقم کی ادائیگی کے بارے میں کہا ورنہ انھیں ہرجانے کا نوٹس دینے کی دھمکی دی گئی۔ اس کے جواب میں بورڈ کے وکیل کی جانب سے جولی کو ایک خط موصول ہوا جس میں یہ سوال اٹھایا گیا جولی اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ریپ کے اتنے عرصے بعد یہ معاملہ کیوں اٹھا رہی ہے۔ سیواناندا کا کہنا ہے کہ جولی سے میٹنگ کے کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے پروٹوکولز لاگو کرنا شروع کر دیے تاکہ تنظیم میں ممبران اور مہمانوں کے لیے ایک محفوظ ماحول بنایا جا سکے جس میں ایسے الزامات کے بارے میں بلا جھجھک بات کی جا سکے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسے شخص کو اب بھی معزز کیوں قرار دیتے ہیں جس نے جولی کا ریپ کیا۔ تو ہمیں جواب دیا گیا کہ ’سیواناندا تنظیم اپنے ورثے اور تعلیم کی قدر کرتی ہے۔‘ ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بورڈ کو سنہ 1999 میں بھی مہادیواناندا کی جانب سے کیے گئے مبینہ جنسی استحصال کی خبر تھی۔ کیونکہ انھوں نے خود ہی ان کے سامنے اس بات کو تسلیم کیا تھا۔ سوامی سارادناندا ایک امریکی خاتون ہیں جو اس وقت اس بورڈ کا حصہ تھیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ سنہ 1998/99 میں انھیں ایک فون کال موصول ہوئی اور دوسری جانب دہلی آشرم کی ڈائریکٹر تھیں اور وہ رو رہی تھیں۔ ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ مہادیواناندا بغیر شلوار کے گھوم رہے ہیں تو سارادناندا کو لگا کہ شاید اس دوران انھوں نے انڈرویئر پہنا ہوا ہو گا۔ تاہم جب سارادناندا نے انھیں خود کال کر کے تفصیلات جانیں تو مہادیواناندا نے بتایا کہ وہ غلط کہہ رہی ہیں۔ وہ اپنے انڈرویئر میں نہیں تھے، بلکہ بالکل برہنہ تھے۔ اور انھوں نے صرف یہی انکشاف نہیں کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’انھوں نے نہ صرف شلوار نہیں پہنی ہوئی تھی بلکہ انھوں نے دہلی آشرم کی ڈائریکٹر کےسامنے مشت زنی بھی کی۔‘ سارادناندا کہتی ہیں کہ یہ سن کر وہ بہت پریشان ہوئیں اور انھوں نے اس حوالے سے بورڈ کی اگلی میٹنگ کے سامنے یہ بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ اس دوران تمام ریکارڈنگ کےآلات کو بند کر دیا گیا تھا اور سیکرٹری کو کمرے سے باہر بھیج دیا گیا تھا۔ مہادیواناندا اس دوران وہاں موجود تھے اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ جو سارادناندا کہہ رہی ہیں وہ درست ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ چاہتی ہیں کہ میں آئندہ ایسا نہ کروں تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے، میں ایسا نہیں کروں گا۔‘ جب سارادناندا نے بورڈ کے اراکین سے پوچھا کہ وہ مہادیواناندا کی جانب سے اعتراف کیے جانے کے حوالے سے کیا کارروائی کریں گے تو ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ’انھوں نے ابھی تو کہا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے، تو آپ اور کیا چاہتی ہیں، ان کا خون۔‘ کچھ ہی مہینوں میں سارادناندا کو ایک فیکس موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ انھیں بورڈ سے ووٹنگ کے بعد ہٹا دیا گیا ہے۔ جب ہم نے ان کے جانب سے لگائے گئے الزامات بورڈ کے سامنے رکھے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سارادناندا کی جانب سے کیے گئے انکشافات سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ جب وینڈی نے سنہ 2006 اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں سٹاف کے ایک سینیئر رکن کو بتایا تو انھوں نے حیرت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ان کا ردِ عمل تھا، ’نہیں، یہ اس نے پھر سے کر دیا۔‘ سٹاف کے رکن نے انھیں بتایا کہ انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تنظیم نے سوامی مہادیواناندا کی کاؤنسلنگ کا انتظام کر لیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وینڈی کے ساتھ جو ہوا وہ کینیڈا کے قانون کے مطابق جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ وینڈی نے مجھے بتایا کہ ’مجھے اس بات کے بارے میں بھی علم نہیں تھا کہ میں اس معاملے کو پولیس کے پاس لے جا سکتی تھی۔‘ تاہم 13 برس بعد بورڈ نے آخر کار مہادیواناندا کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا اور پھر اپنے ماہانہ رسالے میں ان کی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور اس بات کو تسلیم کیا اس ریٹائرمنٹ کے دوران وہ مہادیواناندا کی مالی معاونت کرتے رہیں گے۔ نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایگزیکٹو بورڈ ان ’مخلصانہ اور مثالی سروس‘ کے لیے ان کے شکرگزار ہیں۔ کیرول میرچیسن پراجیکٹ ستیا کی وکیل ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اب تک 25 سے 30 ایسی خواتین سے بات کر لی ہے جنھوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ سیواناندا سٹاف نے ان پر جنسی تشدد کیا۔ کیتھرین پوچھتی ہیں کہ جب بورڈ کے اراکین کو اس واقعے کا علم ہو گیا تھا تو انھوں نے پولیس کو مطلع کیوں نہیں کیا۔ بہت سال گزرنے کے بعد ان کے والدین کو اس بارے میں علم ہوا اور انھوں نے بورڈ سے اس بارے میں بات کی تو کیرول بتاتی ہیں کہ انھیں جواب ملا کہ کچھ بھی بغیر ثبوت نہیں کیا جا سکتا۔ بورڈ نے ہمیں بتایا ہے کہ جس ٹیچر نے کیتھرین کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی تشدد کیا، انھیں اور دیگر سٹاف اراکین کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم ہمیں متعدد ذرائع سے اس بات کا علم ہوا ہے کہ وہ انڈیا کے آشرموں میں اب بھی موجود ہیں اور جب میں نے کیرالا آشرم کال کی تو مجھے بتایا گیا کہ انھوں نے اس سال کے آغاز میں ایک مکمل کورس پڑھایا تھا۔ بورڈ کی جانب سے انٹرویو کی درخواست کو مسترد کیا گیا تاہم انھوں نے ہمارے سوالات کے جواب میں اعلامیہ ضرور جاری کیا جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے: ’بورڈ آف ٹرسٹیز ان تمام خواتین کے ساتھ ہمدردی رکھتے جو سامنے آئیں اور وہ ان تمام خواتین جو یہ سمجھتی ہیں کہ وہ بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں متاثر ہوئی ہیں باور کروا دینا چاہتے ہیں کہ وہ تشدد یا نامناسب رویے کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ اپنی پچھلی تمام غلطیوں کے بارے میں معافی مانگنا چاہتے ہیں جو اس تحقیق میں بتائے الزامات کے خلاف کارروائی کے دوران پیش آئیں۔‘ ’ان الزامات کی وجہ سے سیواناندا نے آزدانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے اور دو قانونی ماہرین کو اس حوالے سے تعینات کیا ہے جنھوں نے اس سے قبل تحفظ سے متعلق پالیسیوں کا جائزہ لینے اور ان کے اطلاق سے متعلق ہماری رہنمائی کی تھی اور مناسب ٹریننگ بھی کروائی تھی۔ سیواناندا تنظیم نے شناخت ظاہر کیے بغیر رپورٹ کرنے کا نظام بھی قائم کیا ہے تاکہ جن افراد کو اس حوالے سے خدشات ہیں وہ سامنے آ سکیں۔ سیواناندا تنظیم جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کے لیے کام کر رہی ہے اور وہ اپنے تمام ممبران کے تحفظ کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ میں نے چار ایسی تحقیقاتت رپورٹس دیکھی ہیں جو اس ٹیچر کے حوالے سے تھیں جن کا نام ہم نہیں لے سکتے، ان تمام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ متاثرین مصدقہ ہیں اور ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سچے ہیں اور ان میں سے دو نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بارے میں بورڈ کو بتایا بھی تھا۔ اپریل میں پٹنی میں قائم آشرما پہنچی جہاں میں گذشتہ پانچ برس سے بطور ٹیچر اور عقیدت مند کے طور پر وقت گزارا تھا۔ تاہم اس مرتبہ میں آشرم کے اندر نہیں جا سکی۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ سیواناندا کی کشش جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ اسے میرے لیے کتنا خطرناک بھی بنا دیتی ہے۔ جن خواتین سے میں نے بات کی انھوں نے مجھے بتایا کہ ایسے میں حقیقت کا احساس کھو دینا بہت آسان ہوتا ہے اور پھر آپ کے لیے اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کے بارے سوال اٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہماری تحقیقات کے دوران جو خواتین سامنے آئیں ان سب کا تعلق مغربی ممالک سے تھے۔ تاہم ممکنہ طور انڈیا سے تعلق رکھنے والی متاثرہ خواتین بھی ہوں گی۔ میں نے ایسی ای میلز دیکھی ہیں جن میں خواتین اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے واقعات کے حوالے س بتا رہی ہیں لیکن وہ یہ سب مجھے بتانے سے ڈرتی ہیں۔ جہاں تک میری بات ہے، تو اب میرا اور سیواناندا کا تعلق تمام ہو چکا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کو لوویز ادامو نے پروڈیوس کیا ہے۔