عزتیں سانجھی ہیں

عزتیں سانجھی ہیں
چند دنوں قبل کراچی سے دو بچیاں لاپتہ ہوٸیں ۔ والدین نے شکایت درج کرواٸیں بچیاں اغوا ہوگئیں۔ بعدازاں ثابت ھوگیا دونوں اپنی مرضی سے گھر سے گٸیں ۔ ہوش حواس میں نکاح کر لیا میڈیا ،سوشل میڈیا پر تشہیر شروع ھوگیءنام نہاد اس واقعے پر چیخ چیخ کر اس پر تبصرے کرتے نظر آتے رھے اداروں کو اپنا کام کرنا تھا وہ کرتے رہے اور حقائق کی تہہ میں جاکر پتہ بھی لگا لیا کہ معاملہ کیا ھے اور پھر سب نے دیکھا کہ یہ معاملہ اغواء کا تو تھا ہی نہیں ،پر جو اس کو ظلم اور بربریت دکھاتے رھے انکو کون روکے گا پگڑیاں اچھالنے میں مصروف اب غایب ہیں ماں باپ روتے رھے انکے جزبات سے جو کھلواڑ ھوا وہ بھی سب نے دیکھا سب گھروں میں بیٹھے اسکو ظلم کا شاخسانہ گردانتے رھے۔مگر نکلا کیا ۔اگر صبر کیا جاتا اداروں کی تحقیق کا انتظار کیا جاتا اور معاملے کو تہہ تک جانے کا انتظار رکھا جاتا تو آج انکے ماں باپ شرمندہ نہ ہو پاتے کیونکہ عزتیں سبکی سانجھی ہوتی ہیں ۔ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے ۔ کیا واقعی یہ سب ماں باپ کو پتہ نہیں چلتا کہ بچے کیا کرنے جارہے ہیں,تمام صورتحال ایک طرف کہ بچے اغواء کر ھوے خود گے یا بھکاوے می آگئے ان تمام صورتحال کا تعین وقت ادارے یا قانون کرے گا۔مگر ہم نے اس ساری صورتحال پر کیا اقدامات کرنے ہیں کیسے ذمےداری نبھانی ھے ہی بات سب سے زیادہ غور طلب اور توجہ کی منتظر ھے۔ خدا کے واسطے خاندانی روایات کو برقرار رکھیں ۔ دادی،پھپیاں کہاں ہیں۔ جن کے ساتھ بچیاں سوتی تھیں پرورش پاتی تھیں انکی تیر جیسی نظروں میں رہتی تھیں۔ ماں سے ڈرتیں اور باپ کے نام سے کانپ جاتے تھے۔اج بھی یہ رویت یقیناً متعدد گھروں میں موجود ھے ۔ ماں سے بھی پہلے گھر کے بڑے یہ بتاتے تھے کہ اچھا برا کیا ہے ۔ کس سے ملنا کس سے نہیں ملنا، سر پہ دوپٹہ کب رکھنا شروع کرنا ہے ۔ کس عمر میں سینہ ڈھانپنا ہے ۔ اسکول جانے کے لیے محلے کے ٹرانسپورٹ والے قابل اعتماد کو چننا ھوتا تھا محلے داری کی بھی روایات تھیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں،ذرا دیر دیر ہوجاتی تو ماں سے پہلے دادی بھاگی پھرتی کہ بچی کا پتہ کرو دیر کیسے ہوگٸی اور اب شادی سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کون کون ہے ۔ دادی دادے کو چھوڑیں بیٹی والوں کو گھر میں ساس سسر بھی گوارا نہیں ۔ آج تو نو عمر بچوں کا بھی الگ کمرہ ہے ۔ ہاتھ میں چوبیس گھنٹے واٹس ایپ اور نیٹ پیکیج کے ساتھ فون ۔ پراٸیویسی کے نام پر مادر پدر آزادی کے ساتھ ساری ساری رات کون جانے بچے بچیاں سوتے ہیں یا موباٸل پر ہوتے ہیں ۔ پتہ نہیں ماں باپ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے کہ انکی کتنی توجہ ہے بچوں پر ۔ بچے سارا دن ساری رات کیا کرتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ نہیں ۔ ماں کو اپنے موباٸل سے فرصت ہوگی تو بیٹی پر توجہ دیگی ۔ اکثر گھروں میں معاشرے کی براٸیاں گنواٸی جاتی ہیں ۔ معاشرے میں آپ خود کتنے حصہ دار ہیں یہ تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ اگر کسی گھر کی نابالغ یا بالغ بچے بچیاں غلط قدم اٹھا رہے ہیں تو سزاوار والدین ھیں نہ کہ بچے ۔ ہر شخص ۔ ہر ماں ہر باپ اکیلا بیٹھ کر ضرور سوچے کہ کہاں غلطی ھوری ھے، اور ہم اصل بے دھیانی سمجھ جائیں تو انشاآللہ بچے غلط اقدم اٹھانے سے بچ جاٸیں گے ۔ بچوں کے غلط رویوں کے ذمہ دار ہم ہیں . عزتیں بھی اس طرح تار تار کسی کی بھی نہ ھوں ،بچی کچی کسر میڈیا پوری کردیتا ھے کچھ عناصر اپنی واہ واہ اور جھوٹی شان وشوکت کے لئے اور خود کو دوسروں کا سب سی بڑا ہمدرد ثابت کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کر چیخ رھے ھوتے ہیں کہ دیکھو فلاں کی بجی اغواء ہو گئی، حقائق پتہ نہیں ھوتے اور والدین سمیت نام نہاد اس تشہیر میں لگ جاتے ہیں کہ بس ظلم ھوگیا ،ارے بھای اداروں کی معلومات میں ڈال کر اللّٰہ سے دعا کرنے اور خود کی اصلاح کرنے کے بجائے سب سے پہلے کسی تشہیر ی شخصیت کو ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری پبلسٹی جلد ھوجاےء۔بعدازاں نتیجہ کچھ اور نکلتا ھے تو اسکا تو کچھ نہیں گیا جو اچھل اچھل کر ظلم کی داستان گردان رہا تھا۔ چلیں سب والدین خود سے سچ بولنا شروع کریں اور کل سے اس سچ پر عمل پیرا ہو جاٸیں کہ بچوں کو کیسے پالنا ہے ۔ کیسے تربیت دینی ہے ۔اور سبکی عزتوں کو اپنی عزت جاننا ھے، بیٹیاں سبکی سانجھی ہیں یہ بات سب کو سوچنی ھوگی ۔ جسکی بیٹی غائب ھوری ھے اسکو بھی اور جو اسکا چیخ چیخ پرچار کر رھا ھے اسکو بھی اللّٰہ تعالیٰ سبکی عزتیں محفوظ رکھے اور ہمیں معاشرے کو بہتری کی جانب ڈالنے کی سکت اور عقل دے۔ آمین