توشہ خانہ کرپشن کہانی

توشہ خانہ کرپشن کہانی
ویسے تو ہر دور حکومت میں ایسے غیر قانونی اور چور بازاری کے قصے عام پائے جاتے ہیں لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایمانداری صداقت کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے بطور سربراہ مملکت انھیں غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے تحائف جنھیں قانون کے مطابق توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوتا یا کوئی ایسا تحفہ جو اس وقت کے سربراہ وزرا اور صدر مملکت کو پسند آجائے تو وہ قانون کے مطابق تہہ شدہ طریقہ کار کے تحت اس تحفے کی مارکیٹ ویلیو لگوا کر اس کو مقرر کردہ رعائتی قیمت پر خرید سکتے ہیں جناب عمران خان جو کہ اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ میرے پاس تو حکومت میں آنے سے قبل ہی سب کچھ تھا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہ تھی عوام میں ان سے متعلق یہ مشہور ہے کہ عمران خان سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر کرپٹ نہیں ہوسکتے اب یہ دعوی بھی بےنقاب ہوا جاتا ہے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئےتحائف کے بارے جلد ہی ہوش ربا تفصیلات بمعہ ثبوت عوام کے سامنے آنے والی ہیں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سنئیر صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمییش کمیشن کو باضابطہ تحریری طور پر پوچھا کہ انہیں تفصیل فراہم کی جائے کہ وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے کون کون سے تحفہ کس کس قیمت پر خریدے ہیں بدقسمتی سے آپنی ایمانداری کا دعوی کرنے والے عمران خان نے اپنے دورے حکومت میں گزشتہ اٹھارہ ماہ سے یہ تفصیلات دینے سے انکاری تھے جبکہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جانے پر کچھ عرصہ قبل پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کو تحریک انصاف کی حکومت میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام کرنے سے متعلق درخواست منظور کر لی۔ آج سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے میڈیا پر قبول کیا کہ عمران خان نے اگر تحفے میں ملنے والی گھڑی توشہ خانہ سے خریدی اور بعدازاں فروخت کی ہے تو کون سا جرم ہے واہ واہ فواد چوہدری صاحب اپ اس قدر سادہ تو نہ تھے کیا اپ کو معلوم نہیں کہ یہ تحفے میں ملنے والی گھڑی کی مارکیٹ ویلیو کیا تھی اور اپنے اختیار کا غیرقانونی استعمال کرتے اس وقت کے وزیر اعظم نے توشہ خانہ سے کتنی قیمت پر خریدی اور اس کو بعدازاں اپ کے کپتان عمران خان نےقیمتی گھڑی کو کتنی قیمت پر فروخت کیا یہ معاملہ اس قدر سادہ نہیں جتنا اپ اس کو بنانا چاہ رہے ہیں یہ تمام معاملہ کرپشن کی اعلی مثال ہے جو صادق و امین قرار پائے جانے والے سابق وزیر اعظم کے اصل کردار کو عیاں کرتا ہے اور میری اطلاعات تو یہ بھی ہے کہ عمران خان نے اس کے علاوہ بھی بہت سے تحائف غیر قانونی طریقہ کار کے تحت بہت کم قیمت پر خریدے ہیں جوکہ ایک سنگین جرم ہے قانون کے مطابق اپ نے تحفہ مارکیٹ ویلیو کی قیمت کو مد نظر رکھ کر خریدنا ہوتا ہے کوڑیوں کے بہاؤ خریدے کے معاملے کو چھپانے کے لئے اپ کی حکومت اس کو حساس معاملہ قرار دیتے عدالت کو تفصیلات فراہم کرنے سے انکاری تھی لیکن اب یہ تفصیلات تو عوام کے سامنے آنی ہیں جلد ہی عوام کے سامنے صادق اور امین عمران خان کے لالچ ہوس اور غیرقانونی طریقوں سے مال بنانے کی داستانیں عام ہونگیں بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں ہیروں کے ہار قیمتی سونے کی اشیاء اور قیمتی گاڑی میں بھی شامل ہیں سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں توشہ خانہ سے لوٹ مار کی داستانیں بے نقاب ہونگی تو عمران خان عوام کو کیا منہ دیکھائیں گے ویسے تو اس دور حکومت میں کرپشن نے جس قدر ترقی پائی وہ اپنی مثال اپ ہے ۔ اب دیکھیے توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی کا طریقۂ کار کیا ہے؟ حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی سربراہ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونا والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے لیکن کیونکہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں کے دوران اتنے تحائف اکھٹے نہیں ہو پاتے کہ ہر برس نیلامی کا انعقاد کیا جا سکے۔سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کا طریقہ کار بتاتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ کسی بھی بیرون ملک کے دورے کے دوران وزرات خارجہ کے اہلکار اس تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے جس کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کروایا جاتا ہے۔حکام کے مطابق اگر ان تحائف کی مالیت 30 ہزار روپے سے کم ہو تو وزیر اعظم، صدر یا وزیر جنھیں یہ تحفہ ملا ہوتا ہے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق یہ مفت لینے کی پیشکش کی جاتی ہے، تاہم اگر تحفے کی مالیت 30 ہزار سے زیادہ ہو تو اس تحفے کی مالیت کا کچھ فیصد حصہ ادا کر کے اسے رکھا جا سکتا ہے۔حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرستیں تیار کر کے انھیں توشہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کی تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم یہ بیش قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی درجہ حرارت تو گرم ہے پر اہم بات یہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے پونے چار سال جو اس ملک وقوم کے ساتھ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا کیونکہ صرف زبانی نعروں اور مخالفین پر الزامات لگانے سے کام بنتا نظر نہیں آرہا اور ان کے دور حکومت کی کارکردگی ملک میں مہنگائی بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے علاوہ کچھ اور نہ تھی عوام کی بڑی تعداد ان کے جھوٹے وعدوں پر شدید نالاں ہے