سرپنچ کے بیل : تحریری سید ابو محمد

سرپنچ کے بیل  :  تحریری سید ابو 
محمد
صحراوں میں دور آباد ایک چھوٹی سی بستی کے مکین یہ سوچ رہے تھے کہ اس ریگستان میں جو ایک نخلستان ہے جس کے بارے میں ان کے بڑے بوڑھے بتاتے آئے ہیں اسے کسی طرح اپنی بستی کے قریب کر لیتے ہیں ۔ انہیں فکر تھی کہ جس سال بارش کم ہوتی ہے ان کی کاریز میں جمع کیا گیا پانی بھی ختم ہونے لگتا ہے ۔ خشک سالی کے باعث پودے تو ویسے ہی مرجھا جاتے ہیں ان کے مویشی بھی مرنے لگتے ہیں ۔ صحت کے معاملے پر ان کی قدرتی جسمانی تبدیلیاں ان کو اگلے موسم تک کہ مہلت دے ہی دیتی ہیں مگر کم خوراک زیادہ کام ان کی عمر گھٹانے کا باعث بن رہی تھی۔ جب چند روز کی بہار آتی تو جشن کا سماں سا ہوتا دوسری بستیوں سے آنے والوں کے ساتھ خوب مقابلے ہوتے ۔۔بیلوں کی دوڑ کے مقابلے ، کشتی اور مقامی کھیل انہیں جینے کا سبب دیتے۔ خوشی یہی ایک تھی کہ اس مرتبہ ان کی بستی نے ارد گرد کی بستیوں کو بیلوں کے مقابلے میں ہرایا تھا اور بیلوں کی جوڑی کا مالک سب سے معتبر سمجھا جانے لگا تھا ۔۔ مگر ان کے نصیب میں لکھا سخت موسم انہیں ہر وقت بھوک، پیاس اور موت سے ڈراتا تھا۔ بیلوں کی جوڑی والے نے مشورہ دیا اگر اسے سرپنچ بنا دیا جائے تو وہ حالات کو بہتر کرسکتا ہے دکھوں کے مارے سبھی بستی کے باسی اسے اپنا رہنما سمجھ بیٹھے اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہو گئے۔ بارش ویسے ہی کم ہوتی تھی مگر اس کے سر پنچ بننے کے بعد بارش اور ہی کم ہو ئی ۔ گرمی اتنی پڑی کہ لوگ گھروں میں قید ہو گئے سب ہی خوفزدہ تھے مگر سر پنچ کی بیلوں کی جوڑی ہشاش بشاش تھی ۔ سب کو پانی تول اور ناپ کر دیا جاتا تھا جس پر کچھ خوش تھے کچھ نا راض ۔۔ ایک روز بستی کے نوجوانوں نے سرپنچ کی بیلوں کی جوڑی کو جمع کیا گیا پانی مزے سے پیتے دیکھا جو کہ سب کو ملنے والے پانی کی مقدار سے کہیں زیادہ تھا ۔ بستی والوں نے اعتراض اٹھایا تو سر پنچ نے کہا میرے بیلوں کے خلاف سازش مت کرو ۔۔۔ پانی پینا ان کا حق ہے ۔۔ بستی والے چیخ اٹھے انسانوں کے پینے کا پانی موجود نہیں اور سرپنچ اپنے بیلوں کو پلائے اور نہلائے کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔ نوجوانوں نے سرپنچ کو بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا مگر سر پنچ کے بیلوں کو بستی کے اصولوں کے منافی اس قدر پانی دیا کہ بستی کےبچے بھی بلبلا اٹھے ۔ بوڑھے دہقان نے سرپنچ کو سمجھایا تم نخلستان کو بستی کے قریب لانے کے خواب دیکھانے والے تھے مگر ہمیں پیاس کی موت دینے لگے ہو ۔ سرپنچ کا کہنا تھا اگر بیل سیراب نہیں ہونگے تو اگلا ہونے والا مقابلہ ہار جائیں گے اس کے لئے قانون اور اصول بدلنا ہوگا ۔۔۔ ارد گرد کی بستیوں کو بھی اس حوالے معلومات ملی تو انہیں بھی دکھ پہنچا کہ بیلوں کی جوڑی کا مالک سرپنچ بنتے ہی اپنی انا کا پجاری بن گیا ہے مگر وہ ان کے معاملے میں بولنا نہیں چاہتے تھے ۔ سرپنچ بستی کے لوگوں کو بستی کا ہی دشمن قرار دے رہا تھا اور کہتا تھا کہ اگر بیلوں سے پانی چھین لو گے تو یقین کرو صحرا میں قائم دوسری بستیاں تم کو نگل جائیں گی۔جبکہ بستی والے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے ۔۔۔ نوجوانوں نے بیلوں کو باندھ لیا قید کرلیا سرپنچ سٹپٹا اٹھا جب اس نے دیکھا اس کے بیلوں کا پانی بستی کے چھوٹے چھوٹے بچے پی رہے ہیں وہ بستی والوں کو بستی کی عزت کے نام پر سزا دینا چاہتا تھا مگر کسی بستی کے دوست باسی نے بیل کو ذبح کرکے گوشت بانٹ دیا ۔۔۔ سرپنچ بھاگا دوسرا بیل بچانے مگر وہ اکیلا ہی بستی سے نکل پایا ۔۔ اسے پھر بھی یقین تھا بستی والوں نے اس کے بیل کے ساتھ ظلم کیا ہے اور اب بستی کبھی بھی عزت اور وقار حاصل نا کر پائے اور ہمیشہ چند دنوں کی بہار کے موسم میں ہونے والے مقابلوں میں ناکام رہے گی ۔